ڈیوڈ ہیوم (1776-1711) کی نظر میں فلسفہءِ اخلاقیات کیا ہے ؟
اظہر علی
ڈیوڈ ہیوم 1711ع میں اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرگ میں پیدا ہوئے۔اس نے بارہ سال کی عمر میں یونیورسٹی آف ایڈنبرگ میں داخلہ لیا۔ وہ تجربیت کے علمبردار تھے۔ ڈیوڈ ہیوم نے تئیس سال کی عمر میں اپنی مشہور کتاب (A Treatise of Human Nature) لکھی جسے عمانیوئل کانٹ نے 57 سال کی عمر میں (Critique of pure Reason) کتاب لکھ کر انتہائی شائستہ انداز میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا:
"میں آزادانہ طور پر تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ڈیوڈ ہیوم کی تنقید تھی جس نے برسوں پہلے میری عقیدت کو ٹھیس پہنچائی اور میری تحقیق کو ایک مختلف سمت دی۔"®1
عمانیوئل کانٹ نے لکھا ہے کہ ڈیوڈ ہیوم توہم پرست(Dogmatic) فلسفیوں پر تنقید کرنے میں درست ہے، لیکن وہ تشکیکی (Skeptical) انداز سے چیزوں کو مکمل طور پر ختم کرنے اور فلسفے کو ایک بندگلی میں لاکر کھڑا کرنے والے عمل میں بلکل بہی درست نہیں ہے. اسی لیے میں ان کی غلطیوں کو درست کروں گا، اور اس طرح ، کانٹ فلسفے کے اندر حدود یعنی (Capacities and Limitation) کا تعین کر کے.تجربیت پسندی (Empiricism) اور عقلیت پسندی (Rationalism)کو یکجا کرتا ہے اور اپنے فلسفے کو ٹرانسڈینٹل آئیڈیلزم کی شکل میں پیش کرتا ہے۔
"ہیوم نے فلسفے کا تصور انسانی فطرت کی استقرائی (Inductive)اور تجرباتی سائنس ( Experimental Science )کے طور پر کیا.اس نے انگلش ماہر طبیعات سر آئیزک نیوٹن کے سائینسی طریقہءِ کار کو اپنا نمونہ( Model)بنا کر انگلش فلسفی جان لاک کی علمیات (Epistemology) کے علم پر تعمیر کرکے،اس کی بنیاد پر [ہیوم نے]یہ بتانے کی کوشش کی کہ دماغ کس طرح اس چیز کو حاصل کرتا ہے،جس کو ہم علم کہتے ہیں۔وہ [ہیوم] اس نتیجے پر پہنچا کہ حقیقت کا کوئی نظریہ ممکن نہیں.تجربے (Experience)کے علاوہ کسی بھی چیز کا علم حاصل کرنا ممکن نہی ہوسکہتا."®2
ڈیوڈ ہیوم کا زبردست کام نہ صرف فلسفہءِ ذھن (Philosophy of Mind) میں پایا جاتا ہے، بلکہ اگر ہم دیکہیں تو،
"چارلس ڈارون اس [ڈیوڈ ہیوم کے] کام کو نظریہ ارتقا پر،ایک مرکزی اثر سمجھتا ہے۔"®3
تاہم ہمارا موضوع ڈیوڈ ہیوم کا اخلاقی فلسفہ ہے.اس لیے ہم اس کو ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ہم اکثر لوگوں اور ان کے اعمال کے بارے میں اپنی رائے بناتے ہیں کہ فلاں اچھا انسان ہے، وہ برا ہے، سچ بولنا اچھی عادت ہے، چوری کرنا برا عمل ہے، محبت میں دھوکہ دینا گناہ ہے، اور وغیرہ وغیرہ.
فرض کریں کہ آپ پیدل راستے سے کام پر جا رہے ہیں، آپ کے پاس سے ایک شخص گزرتا ہے، جس نے لاپرواہی سے پانچ ہزار کا نوٹ اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے گرا دیا اور آپ فوراً وہ نوٹ زمین سے جھپٹ لیتے ہیں۔آپ کو ایک خیال آیا کی وہ پانچ ہزار کا نوٹ آپ اپنی جیب میں ڈال لیں لیکن دوسرا خیال آیا کی نہی یہ تو بُرا عمل ہوگا اور آپ اس شخص کو پیچھے سے بلا کر اسے وہ نوٹ واپس کرکے فخر محسوس کرتے ہو.بلکل اس میں کوئی شق کی گنجائش نہیں کہ اخلاقی اقدار کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں اہم اور مفید کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے یہ اچھا یا اخلاقی یا غیر اخلاقی عمل کیوں کیا؟ اس کے پیچھے کون سی قوتوں نے اپنا کردار ادا کیا؟ہم اگر کوئی رائے قائم کرتے ہیں کہ فلاں عمل اچھا ہے اور فلاں عمل برا ہے تو اس رائے کو بنانے میں آپ کی کس نے مدد کی؟ عقل یعنی (Reason)یا خواہش یا ارادے یعنی (Passion or will)نے؟جیسا کہ ڈیوڈ ہیوم ایک تجربیت پسند فلسفی تھا، اس لیے ظاہر ہے کہ وہ ہر کام کرنے کے پیچھے صرف عقل کے کردار کو ہی تسلیم نہی کرسکھتا تھا.اس لئے ڈیوڈ ہیوم،اس اخلاقی رائے بنانے کے لئے حوصلہ افزائی کرنے والی قوتیں یعنی کسی بھی کام کو سرانجام دینے میں ملوث یا شامل قوتین کونسی ہیں اس کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گا جس کو وہ (Motivator Force ) کہتا ہے۔تو بنیادی طور پر ڈیوڈ ہیوم انہی قوتوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گا کی وہ قوتیں کونسی ہیں جو ہماری اخلاقی رائے بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں. ڈیوڈ ہیوم اس اخلاقی فیصلے یا رائے بنانے کے عمل میں کام آنے والی دو قوتوں کا ذکر کرتا ہے۔
- (1) جوش یا جذبہ یعنی( passion) (خواہش، desire وغیرہ). اور
- (2) عقل یعنی(Reason) کا ذکر کرتا ہے.
مطلب ڈیوڈ ہیوم کے مطابق ہم جو بھی کام کرتے ہیں اس کے پیچھے دو قوتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ایک وہ جسے ہیوم عقل یعنی( Reason) کہتا ہے.اور دوسری قوت کو وہ جذبات یا خواہش یعنی( Passion or wish) کہتے ہیں۔ہیوم لکھتے ہیں کہ؛
"میں سب سے پہلے یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ صرف عقل (reason)کسی بہی ارادے (خواہش) کے عمل کا سبب نہیں ہو سکتی۔"®4
مطلب کہ ہیوم کا دعویٰ ہے کہ نہ تو اکیلی عقل( Reason)اخلاقی عمل کا باعث بن سکتی ہے، نہ ہی اکیلی خواہش یا جذبہ (Passion ) کسی عمل کا باعث بن سکھتی ہے.بلکہ کسی بھی اخلاقی عمل میں ان دونوں قوتوں کا مشترکہ کردار ہوتا ہے.یعنی عقل اور ارادہ یا جذبہ اکٹھے ہوتے ہیں، تب جاکر وہ کسی بہی عمل کے متعلق نہ صرف اپنی ایک رائے (Judgement) قائم کر سکتے ہیں۔ بلکہ اس عمل کو سرانجام بہی دے سکھتے ہیں۔
فرض کریں کہ آپ نے ایک دکاندار سے پانچ سو روپے کا رشن ادھار لیا ہے.اور اب آپ سوچ رہے ہیں کی آپ اس کا ادھار واپس کریں.لیکن ہیوم پوچھتا ہے کہ کیا دماغ کے ذریعے سوچنے سے آپ پیسے واپس کر دیں گے؟ کیا صرف دماغ سے سوچنا ہی کافی ہے کسی عمل کو کرنے کے لئے؟ ہیوم کہتا ہے کہ صرف سوچنا ہی کافی نہیں ہے. بلکہ عمل کو انجام دینے کے لیے خواہش، یا ارادہ یعنی (will) کا ہونا چاہیے.اور یہی ارادہ یعنی (will) آپ کو یہ عمل (Act) کرنے پر مجبور کرے گی۔ ڈیوڈ ہیوم مزید کہا ہے کہ عقل کبھی بہی جذبہ یا خواہش کی مخالفت کرکے اسے رد نہی کر سکتی. صرف ایک جذبہ یا خواہش ہی دوسرے جذبے یا خواہش کی مخالفت کر کے اسے رد دے سکتی ہے۔
مثال کے طور پر، آپ ہمالیہ کی چوٹی پر چڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کی چاہ یا خواہش ہے کہ آپ ایسا کریں. لیکن اس خواہش کے ساتھ ہی آپ کو موت کا خوف بہی ہوتا ہے.اور آپ اس خواہش کو منسوخ کر دیتے ہیں۔ تو دیکھیں یہاں ہمالیہ چڑہنے والی ایک خواہش (wish)کو دوسرے جذبے یعنی موت کے خوف(Fear) نے رد کردیا.اور آپ کے فیصلے یا ارادے کو رد دے کر آپ کے فیصلے کو ہی بدل دیا ۔ یعنی یہاں ایک جذبے یا خواہش پر دوسرے جذبات یا خواہش کی فتح ہوئی۔تو اب جس طرح ایک جذبہ یا خواہش دوسرے جذبے یا خواہش کی مخالفت کر سکتی ہے. اسی طرح کوئی بھی عقلی تجویز ( Rational Proposition)یا فیصلہ یا رائے ایک اور عقلی تجویز یعنی( Rational Proposition) فیصلے یا رائے کی مخالفت کر سکتی ہے. اس کے برعکس اگر عقل کو جذبات کی مخالفت کرنی ہے تو اسے بذاتِ خود کسی عمل (Act) کو سرانجام دینے والا بننا پڑے گا.جوکہ ڈیوڈ ہیوم کے مطابق بلکل بہی نہی ہو سکہتا کیونکہ،کسی بھی عمل میں عقل اور جذبے کا مشترکہ کردار ہوتا ہے.
"جب ہم جذبہ یا خواہش اور عقل کے درمیان مقابلے کے بارے میں سوچتے ہیں،تو ہم اسے عین فلسفیانہ انداز کے برعکس بات کر رہے ہوتے ہیں۔ عقل ہے، اور صرف جذبہ یا خواہش کی غلام ہوسکتی ہے، بغیر کسی دوسرے عنوان یعنی (جذبہ یا جذبہ) کا دعویٰ کیے بغیر[اسے] (خواہش یا جذبے کی) بندگی اور عطاعت [کرنی چاہئے ]۔"®5
ڈیوڈ ہیوم کے مطابق، عقل ہمیں یہ تو بتا سکتی ہے کہ خواہشات کو کیسے پورا یا مکمل کیا جائے۔ لیکن وہ ہمیں یہ کبھی بہی نہیں بتا سکتا کہ کونسی خواہشات ہونی چاہئیں۔اس لیے ہیوم کے نزدیک عقل جذبہ کا غلام ہے۔ عقل کا کردار غلام کی طرح ہوتا ہے، آقا یعنی (خواہش) کہتی ہے کہ مجھے فلاں چیز چاہئے ،(I 'want' that thing)اور غلام یعنی (عقل) کا فرض ہے کہ سوچے کہ اسے کیسے حاصل کیا جا سکہتا ہے۔ ہیوم کے مطابق عقل کا کردار کسی بھی عمل کو انجام دینے میں بہت کمزور ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ ہیوم برطانوی تجربیت پسندی کے علمبردار تھے۔اس لیے اس نے کسی بہی کام کو سرانجام دینے میں عقل کا کردار بہت نیچ دکھایا ہے.
اس طرح ڈیوڈ ہیوم کے مطابق عقل خواہش کا غلام ہے. اور خواہش اور عقل مل کر کوئی بھی عمل سرانجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کسی بھی خواہش کو صرف ایک زیادہ طاقتور خواہش ہی منسوخ یا رد دے سکہتی ہے.جس میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔ اور اسی طرح کوئی بھی عقلی تجویز یا فیصلہ یا ارادہ کسی بھی عقلی تجویز یا فیصلے یا ارادے کو رد کر سکتی ہے۔ڈیوڈ ہیوم کے مطابق ایک عقلی تجویز کے ذریعے خواہش کو رد کرنے کا سوچنا ایک احمقانہ اور غیر فلسفیانہ عمل ہو گا۔
Reference Notes:
- Prolegomena to Any Future Metaphysics, (P ,67).
- Encyclopedia Britannica
- Stanford Encyclopedia of Philosophy.
- A Treaties of Human nature; Citations are by book,(T,II,3,3,P.265).
- A Treaties of Human nature; Citations are by book,(T,II,3,3,266).