-->

نائن الیون کے بعد مسلم دنیا میں "پوسٹ ماڈرن روشن خیالی" اور دہریت کی تبلیغ

9/11 کے بعد مسلم دنیا میں "پوسٹ ماڈرن روشن خیالی" اور دہریت کی تبلیغ

9/11 کے بعد مسلم دنیا میں "پوسٹ ماڈرن روشن خیالی" اور دہریت کی تبلیغ


بشارت عباسی 

جدید تاریخ اور خُصُوصاً جدید نوآبادیاتی تاریخ اور سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کی سیاسی معیشت اور بیسویں صدی کی جیو پالیٹکس کے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بیسویں صدی میں روسی انقلاب کے بعد دنیا میں ایک نظریاتی جنگ کا آغاز ہوا جس میں روس یا سوویت یونین پوری یورپی نوآبادیاتی دنیا (اور مغربی سامراجی سینٹرز کے پرولتاریہ اور محنت کش طبقات ) کے لیے ایک انسپریشن بن کر سامنے آیا ، اور اس روسی انقلاب کی انسپریشن کی بدولت چینی اور مختلف یورپی نوآبادیاتی علاقوں میں ڈی کالونائیزیشن اور نیشنل لبریشن کی تحاریک بھی سامنے آئیں--- دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا دو دھڑوں میں بٹ گئی: ایک سوویت یونین کی سربراہی میں سوشلسٹ دنیا اور دوسری یورپی سامراجی ممالک کے جنگ عظیم کے نتیجے میں آنے والے زوال کے بعد امریکی سامراج کی سربراہی میں قائم ہونے والی نئی سامراجی دنیا جس میں مغربی یورپ کے سامراجی ممالک بھی موجود تھے اور اس کے نئے نوآبادیاتی حواری جہاں یورپی سامراجیوں نے ان پرانے نوآبادیاتی ممالک کی باگ دوڑ کامپریڈار یا مغربی دلال حکمران طبقات کے حوالے کر کے انہیں امریکی سامراج کی جھولی میں ڈال کر چلے گئے۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے، نازیوں کی شکست، اور جرمنی کے دو حصوں میں بٹنے کے بعد  سامراجی کیمپ یعنی امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اپنے سرمایہ دارانہ سامراجی اور نیو کالونیل نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سوویت یونین کی سربراہی میں وجود میں انی والی سوشلسٹ دینا (مشرقی یورپ سے چین تک) اور وہ نوآبادیاتی ممالک جن کو دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی ملی اور وہ امریکی سامراج کے بجائے سوویت یونین کے قریب جانا چاہتے تھے۔ بعد میں یہ سوویت اتحاد تب کمزور ہوا جب ایک طرف چین اور سوویت یونین کے درمیان دوری واقع ہوئی اور دوسری طرف یوگوسلاویہ کے ٹیٹو ، جواہر لعل نہرو، جمال ، کوامے نیکروہما وغیرہ نے غیر جانبدار ممالک کی موومنٹ کے نام سے اتحاد جوڑا جس کا مقصد امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ میں غیر جانبدار رہہ کر اپنے ملکی اور قومی مفادات کو آگے بڑھانا تھا۔ سرد جنگ کے دور کی نظریاتی اور جیو پولیٹیکل کشمکش کے بارے میں تفصیل سے کئی مضامین لکھ چکا ہوں لحاظہ یہاں ہم مسلم دنیا کے اندر سامراجی جیو پولیٹیکل اور نظریاتی پالیسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ 

1-مسلم دنیا میں سامراج نواز سیاسی اسلام کے نظریے کا فروغ

  سرد جنگ کے دوران انڈونیشیا سے لے کر مراکو تک مسلم دنیا جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ سامراجی جیو پولیٹیکل کھیل میں اسٹریٹیجک لوکیشن کی حامل ہونے کی وجہ سے مغربی سامراج کے لیے بے انتہا اہمیت کی حامل تھی (اور اب بھی ہے، چین کے خلاف لڑی جانے والی دوسری سرد جنگ کو ذہن میں رکھیں)، اور مغربی سامراج کسی طور پر مسلم دنیا کے ممالک (خاص طور پر قدرتی وسائل سے مالا مال اور اسٹریٹیجک لوکیشن کے حامل ممالک) کو سوویت کیمپ میں جانے یا غیر جانبدار رہنے کے حق میں نہیں تھا، لحاظہ ہر وہ نظریہ جو مسلم دنیا کو سوویت یونین کے قریب لاتا (مارکسزم وغیرہ) یا غیر جانبدار رکھتا (دائیں بازو کا سیکیولر نیشنل ازم) امریکی سامراج کے حق میں نہیں تھا؛ لحاظہ مارکسزم، کمیونزم، اور دائیں بازو کے سیکیولر نیشنل ازم کے مقابلے میں امریکی (اور برطانوی سامراج ) نے ان ممالک میں ایسی تمام منتخب حکومتوں کے تختے الٹے اور ان کی جگہ فوجی ڈکٹیٹر بٹھائے جو سامراج نواز تھے اور سوویت یونین کے مخالف تھے۔ ان دائیں بازو کے ڈکٹیٹروں کو ہمیشہ اسلام پسندوں نے سپورٹ کیا کیونکہ یہ اسلام پسند مارکسزم، کمیونزم، سوشلزم، اور بائیں بازو کے سیکیولر نیشنلسٹ نظریات کے سخت مخالف تھے کیونکہ یہ اسلامسٹ ان تمام نظریات کو اسلام دشمن اور الحاد پر مبنی نظریات سمجھتے تھے؛ امریکی اور برطانوی سامراج اور ان کی خفیہ ایجنسیوں (سی آئی اے، ایم آئی 6، اور کافی حد تک اسرائیلی موساد ) نے مل کر ان اسلام پسندوں کو ان تمام مارکسی اور لیفٹی رجحانات رکھنے والے حکمرانوں کے خلاف نظریاتی اور سیاسی انداز میں استعمال کرنا شروع کر دیا اور ان کی فنڈنگ بھی کی؛ انہی اسلام پسندوں نے امریکی نواز فوجی  ڈکٹیٹروں کی بھی خوب مدد کی اور اس سلسلے کا آخری معرکہ ہمیں افغان جہاد میں دکھائی دیا جہاں سوويت نواز انقلابی حکومت کے خلاف ایک خونی جہادی کھیل رچایا گیا اور اس کے پیچھے پورا مغربی سامراج، پاکستان، سعودی عرب، اور اسرائیل تک شامل تھے (چین سوویت دوری اور ان کے آپسی اختلاف کی وجہ سے اس نام نہاد جہاد میں چین نے بھی اپنا حصہ ڈالا)۔ 

2-  سوویت یونین کے انہدام اور 9/11 کے بعد کا منظر نامہ 

جیساکہ مندرجہ بالا سطور میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح امریکی اور برطانوی سامراج نے مسلم دنیا میں موجود سیکیولر، ترقی پسند، مارکسی اور سوشلسٹ نظریات، اور رد سامراجی دائیں بازو کے نیشنلسٹ نظریات کے خلاف سامراج نواز اور رجعتی سیاسی اسلام کے مختلف نظریات کو فروغ دیا اور اس نظریاتی جنگ کو سیاسی اور ثقافتی انداز میں کس طرح لڑا گیا political and cultural war against the progressive ideas and ideologies پاکستان میں تو ہم سب جانتے ہیں کہ ان رجعتی نظریات کو ضیاء الحق کے زمانے میں کس طرح پھیلایا گیا اور پروگریسو نظریات کو کس طرح (marginalise )کیا گیا بلکہ کچلا گیا۔ یہ صورتحال 90،کی دہائی میں بھی جاری رہی لیکن 9/11، کے بعد منظر نامہ اچانک سے تبدیل ہوتا ہے اور امریکہ کے چہیتے اور ڈارلنگ جہادی اچانک سے دہشتگرد قرار دئے جاتے ہیں اور امریکہ اور نیٹو کی جانب سے ان کے خلاف نام نہاد( War on terror)کا آغاز ہوتا ہے اور اب مسلم ممالک کے سربراہان سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اس دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دیں۔ 

3- پوسٹ ماڈرن روشن خیال لبرل ازم بمقابلہ سیاسی اسلام 

   اب اس صورتحال میں مسلم دنیا میں میں موجود پروگریسو یا سوویت یونین کے انہدام کے بعد کے امریکی نواز لبرل لوگوں (جس مغربی سامراجی این جی اوز کے کارپوریٹ دانشوروں، اور کارپوریٹ میڈیا کے صحافیوں) کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ اس انتہا پسندانہ جہاد پرستی کے خلاف ایک پوسٹ ماڈرن روشن خیال لبرل بیانہ بنائیں جو ظاہر ہے بیسویں صدی کے جدیدیت پر مبنی رد سامراجی روشن خیال نظرئیے کے مقابلے میں امریکہ نواز ہو اور سوویت یونین کے انہدام کے پروگریسو نظریہ کے خدوخال یہی ہونے چاہئیں کہ ایک طرف رجعتی اسلام پسندانہ انتہا پرستی کا نظریہ ہو اور دوسری جانب سامراج نواز پارلیمانی جمہوریت، نیولبرل انسانی حقوق کا بیانیہ وغیرہ وغیرہ۔ 

4- پوسٹ ماڈرن روشن خیال لبرل ازم کی فلسفیانہ اور سیاسی بنیادیں 

پاکستان میں آپ کو اکثر پوسٹ ماڈرن روشن خیال نیولبرل یہ کہتے ہوئے سنائی دیں گے کہ "ہم جدیدیت کے مہا بیانیوں کے خلاف ہیں کیونکہ ان مہا بیانیوں کی وجہ سے سیاسی جبر اور ٹوٹیلیٹیرین سیاست کی بنیاد رکھی جاتی ہے جو فرد کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف ہے اور فرد پر اجتماعی جبر کا نظام مسلط کرتی ہے " اب بظاہر سادہ اور بے ضرر سے نظر آنے والے بیان کے پیچھے کیا  فلسفہ کارفرما ہے؟ یہ وہ فلسفہ ہے جس کی بنیاد انیسویں صدی کے ری ایکشنری اینٹی ماڈرنسٹ فلسفیوں یعنی شوپنہار، نطشے، اور بیسویں صدی میں ہائڈیگر اور پھر ان کی فکر سے متاثر شدہ بیسویں صدی کے پوسٹ اسٹرکچرلسٹ اور پوسٹ ماڈرن فرانسیسی دانشورں کی فکر شامل ہے۔ ان پوسٹ اسٹرکچرلسٹ اور پوسٹ ماڈرن دانشورں نے جدیدیت کے تمام مہا بیانیوں اور پروگریسو نظریات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جدیدیت کے تمام مہا بیانیوں نے انسانوں کو سوائے جنگوں کے کچھ بھی نہیں دیا اور مارکسزم بھی ایک جدیدیت پر مبنی ایک مہا بیانیہ ہے جس کے نتیجے میں فرد سوشلسٹ نظام فرد کے ساتھ وہی ظلم روا رکھتا ہے جو لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں نظر آتا ہے، اسی وجہ سے ہمیں ان مہا بیانیوں پر مبنی (Macro politics) کو ترک کرکے مائکرو سیاست پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو فرد کو ریاستی اور سماجی جبر سے آزاد کرے ۔۔۔ اب مسلم دنیا میں بھی اسی قسم کی پوسٹ ماڈرن لبرل روشن خیالی پھیلائی جا رہی ہے جس میں پوسٹ ماڈرن نظریات کو ایک طرف سیاسی اسلام کی انتہا پسندانہ جہادی نظریات یا پھر انتہائی انداز میں مذہب کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے (جو خود امریکی سامراج نے بیسویں صدی میں مسلم دنیا میں موجود جدیدیت پر مبنی روشن خیال اور پروگریسو نظریات کے خلاف استعمال کیا) اور دوسری طرف اسی پوسٹ ماڈرن روشن خیالی لبرل ازم کے ہتھیار سے مارکسزم اور طبقاتی و سامراج مخالف نظریات کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے کہ ان مہا بیانیوں نے بیسویں صدی میں انسانوں پر ریاستی جبر کا نظام مسلط کیا اور اس نظام میں فرد کی آزادی کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ۔۔ مطلب پوسٹ ماڈرن روشن خیال لبرل ازم کو بلکل چنو منوں اور پپلو قسم کے ممی ڈیڈی پوسٹ ماڈرن روشن خیال سبجیکٹ چاہئیں جو مزاحمتی اور رد سامراجی شعور سے عاری، اپنے نیوکالونیئل ممالک سے بیزار، مغربی سامراجی معاشروں کی عیاشی اور ان کے پوسٹ ماڈرن نيولبرل نظام کے دل دادا، اور اپنے ممالک میں سامراج مخالف تحاریک اور طبقاتی جدوجہد کی سیاست کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے والے یہ زومبی قسم کے پوسٹ ماڈرن روشن خیال سبجیکٹ چاہئیں۔۔۔ یہ زومبی مذہب سے لے کر رد سامراجی سوشلسٹ نظریات اور پروگریسو فکر کو "مہا بیانیہ" کہہ کر رد کرتے ہیں اور جب ان پگلے من موجییوں سے یہ پوچھا جائے کہ پھر متبادل کیا ہے تو انتہائی بھوڈے اور جاہلانہ انداز میں جواب دیں گے کہ "ہمیں مغرب والا نیولبرل پوسٹ ماڈرن نظام اختیار کرنا چاہیے" اب ان جاہلوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ اس نظام کے لیے بھی جدوجهد مائکرو نہیں بلکہ میکرو سیاست میں آتی ہے، یعنی ایسے نظام کے لیے جدوجہد جہاں چھوٹے بیانیہ کی سیاست کی جائے کے لیے بھی ایک مہا بیانیہ چاہیے ہوتا ہے، کیونکہ مغرب کے جس نظام کی آپ بات کر رہے ہیں وہ بذات خود ایک مہا بیانیے کی پیداوار ہے۔۔۔ لیکن ان ممی ڈیڈی جاہلوں کو تاریخ، سیاست، فلسفہ، سیاسی نظریات، سامراجی جیو پالیٹکس اور سرمایہ دارانہ نظام کا کچھ علم ہو تو ان سے گفتگو کی جائے،  ان پپلو بچوں کو چھوٹا لولی پاپ اور چھوٹا بیانیہ چاہیے۔

Previous Post Next Post