-->

فلسفے کی دو مختلف روایات اور لبرل وائرس

 فلسفے کی دو مختلف روایات اور لبرل وائرس

فلسفے کی دو مختلف روایات اور لبرل وائرس

بشارت عباسی 

فلسفے اور فکر کی دنیا میں دو مختلف الخیال روایتیں رہی ہیں: 

1- پارمنائیڈیز، افلاطون، ارسطو سے لے کر اسپنوزا، لائبنیز، اور کانٹ تک اور دوسری 

2- ہیراکلائیٹس، ہیگل، مارکس، اینگلز، لینن اور اسی روایت سے جڑے ہوئے بیسویں صدی کے دوسرے بڑے مفکرین۔۔۔

ایک تیسری روایت بھی رہی ہے لیکن اسے فلسفیانہ روایت ہر گز نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس روایت کو ماننے والے نے خود کبھی اپنے آپ کو فلسفی نہیں کہا اور وہ یہ ہے: 

3- اسٹائکس، تشکیک پسندی، ہیوم، نیٹشے، جدید وجودیت پسندی، ہائڈیگر اور اس روایت سے متاثر شدہ بیسویں صدی کے پوسٹ اسٹرکچرلسٹ اور پوسٹ ماڈرنسٹ مفکر وغیرہ۔۔۔ 

آج میرے اس مختصر مضمون کا موضوع مذکورہ بالا دو روایات پر ہوگا، تیسری روایت پر یعنی قدیم یونانی تشکیک پسندی سے لے کر پوسٹ ماڈرن ازم تک کی روایت پر مذکورہ بالا دونوں روایات ہی تنقید کرتی ہیں لحاظہ اس روایت پر تنقید کسی اور مضمون میں کریں گے۔

1- پہلی روایات (یعنی پارمنائیڈیز سے لے کر کانٹ تک) کے فلسفیوں میں کم از کم ایک بات پر اتفاق ہے اور وہ یہ کہ یہ فلسفی کسی ایسی حتمی، آفاقی، اور غیر مُتَغَیّر حقیقت کو مانتے ہیں جو دنیا (یعنی visible-sensible world) کے بدلتے حقائق اور ہمہ گیر تبدیلی سے بالا و مبرا ہے اور یہ حتمی حقیقت مُتَغَیّر دنیا کے اثرات سے پاک ہے۔ ان فلسفیوں میں کچھ( Monist)تھے (پارمنائیڈیز، ارسطو اور اسپنوزا ) کچھ (Dualist) تھے (افلاطون، ڈیکارٹ اور کانٹ) اور کچھ"pluralist" (لائبنیز وغیرہ ) لیکن جو ایک چیز ان سب میں مشترک تھی وہ یہ حتمی حقیقت (ultimate reality )غیر مُتَغَیّر ہے۔ 

2-  دوسری روایت کے مفکرین کا باوا آدم ہیراکلائیٹس کو کہا جاتا ہے،جس کے نزدیک پوری کائنات کا بنیادی جوہر آگ ہے اور آگ ہمیشہ حالت تغیر میں رہتی ہے لحاظہ کائنات کا بنیادی جوہر تغیر ہے اور اس تغیر کو ہیراکلائیٹس نے اپنی جدلیاتی منطق( logos)میں بیان کرنے کی کوشش کی اور جدلیات کے بنیادی اصول یعنی ضدیدن کے تضادات اور انضمام (unity and conflict of the opposites) اور تضادات کو تبدیلی کے جوہر کے طور پر بیان کرنا؛ ہیراکلائیٹس کے نزدیک انسانی تاریخ اور سماج میں تبدیلی کے محرکات کا اصل سبب بھی یہی تضادات ہیں (جو جنگوں، بغاوتوں اور انقلابات کی شکل میں سامنے آتے ہیں) ۔۔۔ ہیگل کو نہ صرف مغربی فلسفے کا بلکہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا سسٹم بلڈر فلسفی کہا جا سکتا ہے، ہیگل کا فلسفہ اس وقت کے تمام تر فلسفے کا جدلیاتی امتزاج یا( synthesis) تھا جس میں ہیگل کے نزدیک حتمی حقیقت آئیڈیا ہے جو اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے تغیر پذیر ہوتا ہے؛ ہیگل نے جدلیاتی منطق کو انتہائی ترقی یافتہ شکل میں پیش کیا جو اس وقت تک کے جدلیاتی فلسفے اور منطق کا نچوڑ تھا۔ مارکس اور ہیگل کے فلسفے کے درمیان فرق کو میں کافی دفعہ اپنی متعدد تحاریر میں بیان کر چکا ہوں لحاظہ اس وقت اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں؛ میں کامینٹ سیکشن میں ان میں سے چند مضامین کے لنک شیئر کر دوں گا۔ مارکس نے اپنے دور کے میکانکی مادیت اور جرمن عینیت پسندی کا جدلیاتی امتزاج پیش کیا جسے ہم جدلیاتی مادیت کے نام سے جانتے ہیں جو ہیگل کی عینیت پسند جدلیات سے مختلف بھی ہے اور کا جدلیاتی امتزاج بھی (تفصیل کے لیے کامینٹ سیکشن میں دیے گئے مضامین پڑھیں ) لیکن مارکس کا تعلق بھی فلسفے کی اسی ہیراکلائیٹین اور ہیگلیائی روایت سے تھا کہ جس میں کائنات سے لے کر انسانی سماج اور تمام تر تاریخی نظام (معاشی، سیاسی، سماجی، اور تمدنی زندگی ) اپنے اندرونی و بیرونی تضادات کی وجہ سے ہمیشہ تغیر پذیر رہے ہیں اور کوئی بھی سیاسی، سماجی، اور معاشی نظام ( جو اپنے اندرونی اسٹرکچرل اور طبقاتی تضادات سے پر ہوتا ہے) ہمیشہ کے لئے برقرار نہیں رہ سکتا۔۔۔ اینگلز، لینن، مائو، لوکاش، گرامچی، اور التھوسے بنیادی طور پر اسی روایت سے تعلق رکھتے ہیں، البتہ ان کے درمیان معمولی نوعیت کے فلسفیانہ اختلافات بھی موجود ہیں اور یہ اختلافات کسی بھی فلسفیانہ روایت کی ترقی اور سافسٹیکیشن کے لیے لازمی بھی ہوتے ہیں، کیونکہ آنے والی نسلیں ان اختلافات سے سیکھتی بھی ہیں اور ان کو جدلیاتی اور تنقیدی انداز میں ٹرانسینڈ بھی کرتی ہیں۔۔۔ اور اب آتے ہیں مضمون کے اصل (core) کی طرف ، یعنی یہ لبرل وائرس کیا چیز ہے؟ 
3- لبرل وائرس 
لبرل ازم ویسے تو اپنی بنیاد میں ایک انقلابی فلسفہ تھا یعنی یورپی بورژوازی طبقے کی قرون وسطیٰ کی جاگیردارنہ اور کیتھولک عیسائیت کے خلاف ایک علمی، فلسفیانہ، اور سیاسی بغاوت کا فلسفہ، لیکن جیسے ہی بورژوازی طبقے نے فیوڈل ازم کو شکست دے کر اپنا معاشی، سیاسی، اور سماجی ورلڈ آرڈر متعرف کرایا تو وہ اس تبدیل شدہ آرڈر کو انسانی تاریخ کا حتمی اور حرف آخر نظام یا آرڈر سمجھنے لگے اور اپنے اندرونی اسٹرکچرل اور طبقاتی تضادات کو کبھی اپنے نظریاتی تو کبھی ریاستی قوت سے دبانے کی کوششیں کرتے رہے، جب اندرونی طبقاتی تضادات بغاوتوں کی شکل لینے لگتے ہیں اور ان کو انقلابی کنجنکچر کا سامنہ ہوتا ہے تو یہ اصلاحات کے ذریعے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر ننگی فسطائیت کا سہارا لے کر ان تمام تضادات کو ریاستی دہشت کے زور پر کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد فوکویاما نامی لبرل ہیگلیائی فلسفی نے اسے تاریخ کا اختتام قرار دیا؛ فوکویاما الیگزینڈر کوجیو نامی فرانسیسی لبرل ہیگیلین کا پیروکار ہے جس نے ہیگل کی لبرل ہیومنسٹ ٹائیپ کی تشریح کی اور ہیگل کی تاریخ کے اختتام کے کانسپٹ کو فرانسیسی بورژوازی انقلاب اور لبرل روایت کے اندر انٹرپریٹ کرنے کی ناکام کوشش تھی جسے ہپولائیٹ جیسے ہیگل اسکالرز رد کر چکے ہیں۔ اس لبرل وائرس کے متعلق جیجیک جیسے فلسفی بھی اپنی متعدد تحاریر اور لیکچرز میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ہم (مغربی مارکسسٹ ) بھی نہ چاہتے ہوئے بھی اس لبرل وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور اندرونی طور پر اس بات پر یقین کر بیٹھے ہیں کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام انسانی تاریخ کا آخری نظام ہے اور اس نظام سے آگے جانا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے یعنی سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے لے کر اب تک کا لبرل وائرس یہی ہے یعنی فوکویامن لبرل وائرس کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام تاریخ کا آخری نظام ہے اور اس نظام سے آگے جانے کے تمام تر تجربات ناکام ہو چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تیسری دنیا، گلوبل سائوتھ، یا نئی نوآبادیاتی دنیا کے لبرل اور لبرل قومپرست دانشور بھی اسی لبرل وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کو انسانی تاریخ کا آخری نظام ہی سمجھتے ہیں اور اس نظام پر تنقید کرنے والوں کو ہر وقت نظریاتی طور پر دبانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں (ظاہر ہے سوویت یونین کے انہدام کے بعد سامراجی سینٹر کے غالب نظریات کا جادو پیریپھریز میں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے اس وقت )

4- لبرل وائرس کی فلسفیانہ بنیادیں 

    جیساکہ مضمون کی ابتدا میں عرض کر چکا کہ فلسفے کے اندر دو غالب روایات موجود رہی ہیں، ایک وہ روایت جو کسی غیر متغیر آفاقی حقیقت کو مانتی ہے اور دوسری جو تغیر کو کائنات کا بنیادی جوہر مانتی ہے؛ پوسٹ سوویت یعنی فوکویامن لبرل ازم بھی قطعی طور پر ہیگلیائی نہیں ہے بلکہ جیسا اوپر عرض کر چکا کہ یہ الیگزینڈر کوجیو کی ہیگل کی لبرل تشریح سے متاثر شدہ ہے اور جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ ہیگل کی لیفٹ سے لیکر لبرل اور کنزرویٹو سے لے کر فسطائی تشریحات موجود ہیں (ہیگلیائی مارکسزم بھی ہیگل کی لیفٹ ونگ تشریحات کی مختلف اقسام کا نام ہے) لیکن ہیگل کی اس لبرل فوکویامن تشریح کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہیگل کے جدلیاتی فلسفے اور منطق کی ایک نہایت ہی بھونڈی تشریح ہے کیونکہ ہیگل جیسا جدلیاتی اور تاریخی عقلیت پسند فلسفی کسی بھی ایسے نظام کو تاریخ کا آخری نظام نہیں کہہ سکتا کہ جس نظام میں اسٹرکچرل اور طبقاتی تضادات کے ساتھ ساتھ سینٹر اور پیریپھریز کے آقا و غلام کے خونخوار تضادات موجود ہوں اور کوئی ایسا ورلڈ آرڈر وجود نہ رکھتا ہو جو ان تضادات کی جدلیاتی مفاہمت کی طرف نہ لے کر جائے (مارکس اور لینن کے نزدیک سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے تضادات  (Antagonistic Contradictions )ہیں جو اس نظام کو ختم کیے بغیر کبھی ختم نہیں ہوسکتے)۔ ثابت یہ ہوا کہ یہ  (End of history) لبرل وائرس یا سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کو تاریخ کے آخری اور غیر مُتَغَیّر نظام کے طور پر تسلیم کر لینے کا تعلق فلسفے کی مذکورہ بالا پہلی روایات سے ہے یعنی "پارمنائیڈیز، افلاطون، ارسطو، اسپنوزا، لائبنیز اور کانٹ" والی روایت سے اور وہ اس طرح کہ کسی بھی نظام کو انسانی تاریخ کا آخری نظام مان لیا جائے اور یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ نظام رہتی دنیا تک قائم رہنے والا ہے۔ 

نتیجہ: فلسفے کی دوسری روایت (یعنی ہیراکلائیٹس، ہیگل، مارکس اینگلز، لینن، مائو، لوکاش، گرامچی، اور التھوسے وغیرہ) کسی بھی ایسی آفاقی اور غیر مُتَغَیّر حقیقت کو نہیں مانتی اور نہ ہی اس بات کو کہ انسانی تاریخ کا کوئی بھی نظام تاریخ کا آخری نظام ہوگا ؛ مارکس نے تو کمیونزم کے باری میں بھی یہی کہا تھا کہ: 

"The bourgeois mode of production is the last antagonistic form of the social process of production – antagonistic not in the sense of individual antagonism but of an antagonism that emanates from the individuals' social conditions of existence – but the productive forces developing within bourgeois society create also the material conditions for a solution of this antagonism. The prehistory of human society accordingly closes with this social formation." 

یعنی موجودہ بورژوازی سرمایہ دارانہ سامراجی نظام تو ابھی حقیقی انسانی تاریخی نظام میں داخل ہی نہیں ہوا ہے، اب تک کی انسانی تاریخ تو محض ایک پری ہسٹوریکل تاریخ ہے جو ( antagonistic contradictions) سے بھرپور ہے؛ کمیونزم اس پری ہسٹری کا اختتام ہوگا اور انسان ایک نئی انسانی تاریخ میں قدم رکھے گا جو تضادات سے بلکل پاک تو کبھی نہیں ہوگی لیکن اب تک کے (antagonistic contradictions) سے آگے جا چکی ہوگی۔ 

مضمون کے دوسرے حصے میں میں "لبرل وائرس کی پوسٹ ماڈرن شکل " پر بات کروں گا اور بنیادی طور پر اسی کا فوکس رچرڈ راٹی  (Richard Rorty )کے پوسٹ ماڈرن لبرل فلسفے پر ہوگا۔

Previous Post Next Post