مغربی سرمایہ دارانہ سامراجی جدیدیت بمقابلہ سوشلسٹ جدیدیت
حصہ اول
بشارت عباسی
1- بورژوازی سرمایہ دارانہ جدیدیت، انسان پرستی اور روشن خیالی کی فلسفیانہ بنیادیں اور جدلیات۔ (The Dialectic of Enlightenment)
آگے بڑھنے سے پہلے میں یہاں" Dialectic of Enlightenment "کے اصطلاح کی وضاحت کر دوں کہ اس مضمون میں یہ اصطلاح فرینکفرٹ اسکول سے تعلق رکھنے والے اڈورنو اور ہورکہائیمر کی لکھی گئی کتاب سے بلکل مختلف ہے جو جدیدیت اور روشن خیالی پر ایک "totalistic"اور مجرد تنقید ہے اور مارکسی جدلیاتی تنقید کے مقابلے میں جرمن فلسفی نطشے کی جدیدیت اور مغربی فلسفیانہ "logocentric" روایت پر تنقید کے زیادہ قریب ہے۔ اڈورنو اور ہورکہائیمر کی اس تنقیدی پوزیشن کو مارکسسٹوں اور فرينکفرٹ اسکول ہی کے بڑے (second generation) فلسفی ہیبرماس نے بھی اپنی متعدد تحاریر (خصوصٙٙ The Philosophical Discourse of Modernity ) میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ یہ پوزیشن جدلیاتی تنقید کے بجائے جدیدیت پر رومانوی اور نطشائی پوسٹ ماڈرنسٹ تنقید زیادہ ہے (اس کی تفصیل مضمون میں آگے چل کے بیان کرتے ہیں)۔
مغربی فلسفیانہ جدیدیت کا آغاز ڈیکارٹ کے فلسفے اور "modern subjectivity" سے ہوتا ہے جس میں ڈیکارٹ اپنے فلسفے کی بنیاد ہی شعور زات یا "self-consciousness" پر رکھی کہ میرا شعور زات ہر شک و شبہ سے بالا ہے، جس پر شک "Doubt"نہیں کیا جاسکتا۔ ڈیکارٹ کے نظریہ علم "Epistemology" کے بعد مختلف تنازعات شروع ہو گئے جیساکہ" Rationalism vs Empiricism, monism, dualism, pluralism" اور ڈیوڈ ہوم تک آتے آتے یہ بات جدید "Epistemological skepticism" تک پہنچ گئی اور ان تمام تنازعات کو جرمن عینیت پسند فلسفیوں نے مختلف انداز میں حل کرنے کی کوشش کی (کانٹ، فیختہ، شیلنگ) اور اس سلسلے کی آخری کڑی ہیگل کے جدلیاتی فلسفے پر آکر ختم ہوئی جہاں ہیگل نے نہ صرف جدید فلسفیانہ " Epistemological "مسائل کو اپنے جدلیاتی اور کلی فلسفے کے اندر حل کرنے کی کوشش کی بلکہ مغربی فلسفے کی روایت کے تمام تر تنازعات" Being and thought, existence and essence, individual and society" اور شعور کے تاریخیت کے ساتھ تعلق ، شعور کی پست اور ترقی یافتہ اشکال، اور ان تمام تر مسائل کو اپنے فلسفیانہ سسٹم میں جدلیاتی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی ( Through his ontological and temporal dialectics)۔۔۔ اس مضمون میں ہم جدید مغربی فلسفے کی تاریخ یا ان فلسفیانہ تنازعات کی تفصیل میں نہیں جائیں گے کیونکہ یہ اس مضمون کا موضوع نہیں ہے، ہم یہاں پر جدیدیت کے نظریاتی اور سیاسی پہلوؤں پر بات کریں گے جو اس مضمون کا بنیادی موضوع ہے۔
2- روشن خیال جدیدیت کی جدلیات اور مغربی بورژوازی انسان پرستی کا نظریہ؛" The real dialectic of Enlightenment"
یورپی جدیدیت کا آغاز فیوڈل دور کے اپنے اندرونی معاشی اور سیاسی تظادات کے نتیجے میں ہوا- یورپ مین 1347-1353 کے درمیان آنے والے طاعون (Bobanic plague/ black death ) کی وجہ سے کروڑوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے اور یورپ کی فیوڈل معیشت پہ اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس طاعون کی وجہ سے جتنی اموات ہوئیں اور معیشت کی تباہی ہوئی، اس نے ایک جدید یورپ کی بنیاد ڈالی اور جو یورپ پہلے ہی اپنے اندرونی و بیرونی تضادات کا شکار تھا (جیسا کہ یورپ کے ایشیا کے ساتھ تمام تجارتی راستے مسلم ایمپائرز کے ہاتھوں میں تھے اور یورپ معاشی اعتبار سے چین، ہندوستان، اور عثمانی سلطنت سے بہت پیچھے تھا) اس طاعون نے ان تضادات کو اور تیز کر دیا اور آنے والی صدیوں میں انگلینڈ اور فرانس کی سو سالہ جنگ، ہولی رومن ایمپائر کا کمزور ہونا اور ٹوٹنا، یورپ میں نشاة ثانیہ کا آغاز، پرنسلی اسٹیٹس کا قیام، کسان بغاوتیں، پروٹسٹنٹ ریفارمیش، لبرل سیاسی انقلابات اور روشن خیالی کے دور کا آغاز وغیرہ- پروٹسٹنٹ ریفارمیش کے نتیجے میں یورپ میں دو طرح کی تبدیلیاں سامنے آئیں: ایک معاشی تبدیلی جس کے نتیجے میں یورپ کے اندر ایک نئے تاجر طبقے کا عروج (جنہیں بورژوازی یا شہری متوسط طبقہ بھی کہا جاتا ہے ہے) ہوا اور ریفارمیش کے نتیجے میں اس طبقے نے ریاست کو معیشت سے علیحدہ کر کے اوائلی سرمایہ دارانہ نظام یا (primitive accumulation ) کا آغاز کیا. اور دوسری تبدیلی سیاسی تھی جس میں اسی بورژوازی تاجر طبقے نے دوسرے شہری متوسط طبقے (جس میں شہری پیشہ ورانہ افراد شامل تھے) کے ساتھ مل کر سیاسی انقلابات کا آغاز کیا جن کا مقصد ایک ایسا سیاسی نظام وجود میں لانا تھا جو کہ نئی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور ان طبقات کی سیاسی نمائندگی بھی کرے. ان انقلابات میں بورژوازی طبقے نے نچلے طبقات کو بھی اپنے ساتھ ملایا (displaced peasants who later became the urban proletariat classes) اور ان کو اپنے سیاسی ایندھن کی طرح استعمال کیا. اوپر بیان کردہ ان تمام تر معاشی، سماجی، و سیاسی انقلابات کا سفر نہایت ہی پیچیدہ تھا اور اس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ مارے گئے. تاریخ میں اس طرح کی ٹرانسفارمیشنز کبھی سموتھ نہیں ہوتیں بلکہ خونریز ہوتی ہیں. صرف پروٹیسٹنٹ ریفارمیش اور اس کے بعد یورپ میں ٣٠ سالہ جنگ میں ہی ٨٠ لاکھ سے ایک کروڑ لوگ مارے گئے. اس کے بعد انگلش اور فرانسیسی انقلابات میں بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے. تاریخ میں ترقی و تبدیلی کے انہی تضادات کو تاریخ کی جدلیات کہا جاتا ہے جسے پہلے ھیگل نے اپنے خیال پرستانہ فلسفے میں بیان کرنے کی کوشش کی اور پھر مارکس ھیگل کی خیال پرستانہ اور مابعدطبیعاتی فلسفہ کو رد کر کے اس کی جدلیات کو مادی انداز میں پیش کیا. اسی وجہ سے مارکسی فلسفے کو جدلیاتی اور تاریخی مادیت بھی کہا جاتا ہے (جس کا تفسیل سے آگے جائزہ لیں گے).
افکار کی تبدیلی اور معروضی حالات کی تبدیلی کا ایک جدلیاتی تعلق ہوتا ہے، نئے معروضی حالات انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور اس نئی سوچ کے نتیجے میں میں انسان اپنے معروضی حالات کی نہ صرف تشریح کرتا ہے بلکہ وہ ان نئے افکار کے نتیجے میں معرروض پر اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کرتا ہے. اور یہی جدید یورپ میں بھی ہوا. ایک طرف یورپ میں اوپر بیان کی گئی معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور دوسری طرف جدید فکر و فلسفے نے نہ صرف ان معروضی تبدیلیوں کی تشریح کرنے کی کوشش کی بلکہ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ایک نئے انسان (جو کہ بورژوازی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تھے) کی نہ صرف تشریح کی بلکہ نیا نظریہ انسان بھی دیا، جسے ہم انسان پرستی یا انسان دوستی کا فلسفہ بھی کہتے ہیں (bourgeoisie humanism). اس نئے انسان دوست فلسفہ کی بنیاد فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ نے رکھی۔ ڈیکارٹ اپنے فلسفے کی بنیاد کائنات یا خدا پے نہیں رکھی بلکہ اس کی بنیاد انسانی شعور یا "self consciousness" پہ رکھی. اور یہیں سے انسانی آزادی و خودمختاری کے فلسفے کا آغاز ہوا۔ اس نئے انسان دوست فلسفے کے مطابق باشعور انسان وہی ہے جو تمام تر مذہبی، گروہی، نسلی، لسانی، اور جغرافیائی تعصبات سے بالاتر ہو۔ اس انسان دوست فلسفے کو "abstract and ahistorical humanism "بھی کہا جاتا ہے جس کا "influence" ہمیں رشن خیالی کے تمام تر فلسفوں میں نظر آتا ہے (یعنی ڈیکارٹ سے لے کر کانٹ تک). اس فلسفے میں بظاہر انسان کا ایک آفاقی اور غیر تاریخی نظریہ نظر آتا ہے لیکن اصل میں یہ ایک یورپین بوژوازی نظریہ انسان تھا اور ہیگل وہ پہلا فلسفی تھا جس نے اس فلسفے کے بوژوازی نظریے کو بے نقاب کیا اور اسے آفاقی نظریے کے بجائے یورپی تاریخیت کی پیداور بتایا.
بہرحال ایک طرف یورپ میں اس نئے بوژوازی انسان پرست اور انسان دوست فلسفے کا آغاز ہوا تو دوسری طرف یورپ میں پیدا ہونے والے نئے سرمایہ دار طبقے نے ایک نئے معاشی نظام کی بنیاد ڈالی جس کا آغاز آزادانہ تجارت، جدید سودی بنکاری، اور اندسٹریل پروڈکشن سے ہوا. اس سرمایہ دارای نظام کے نئے "mode and relations of production" کا تقاضا یہ تھا کہ خام مال اور بیرونی اشیاء صرف کے حصول کے لئے نئ منڈیاں تلاش کی جائیں اور نئے بحری راستے تلاش کئے جائیں جن کے ذریعے ھندوستان، چین، اور مشرق بعید کی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو، بری راستے، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ مسلم سلاطین کے قبضے میں تھے اس لئے بحری راستے کا انتخاب ہی واحد حل تھا. اور پھر ہم نے دیکھا کہ نہ صرف ھندوستان کی مندی تک بحری رسائی کا راستہ تلاش کر لیا گیا، بلکہ اسی جستجو میں بر اعظم امریکہ بھی دریافت ہو گیا. مغرب کی ان تجارتی کمپنیوں پہلے تو آزادانہ تجارت کا آغاز کیا پھر آہستہ آہستہ ان کو احساس ہوا کہ ان مشرقی سلاطین کے اندرونی تضادات اتنے گہرے ہیں کہ ان پہ قبضہ کر کے ان کو نو آبادیات (colonies) میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور پھر ان سے آزاد تجارت کے بجائے ان کی لوٹ کھسوٹ کی جاسکتی ہے. پھر جیسا کہ ہم جانتے ہیں مغرب نے تقریباً پوری دنیا کو کالونائز کر لیا. بر اعظم امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ میں تو انہوں نے وہاں بسنے والے لوگوں کی نسل کشی ہی کر دی، بر اعظم افریقہ کے بیشتر علاقوں کو نہ صرف کالونائز کیا بلکہ افریقہ کے سیاہ فام لوگوں کو غلام بنا کر یورپ اور امریکہ لے جایا گیا اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا. ھندوستان آہستہ آہستہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں آتا چلا گیا اور مکامی حکمرانوں کو ایک کے بعد ایک شکست ہوتی چلی گئی. کمپنی نے ہندوستان کا تمام تر بہیمیت کے استحصال اور لوٹ کھسوٹ کرنا شروع کردی اور یہاں سے لوٹا ہوا مال انگلستان جانا شروع ہو گیا. اس ساری نسل کشی، قتل و غارت، لوٹ مار اور استحصال کو بورژوازی انسان پرستی اور پروٹسٹنٹ عیسائیت کی فکر کے ذریعے جسٹیفائی کیا گیا. بورژوا انسان پرستی کا مطلب یہ تھا کہ صرف یورپین نسل کے گورے لوگ ہی حقیقی معنوں میں انسان ہیں اور باقی دنیا کے لوگ جو نہ پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں اور نہ ہی ان کے اندر یورپی انسان دوستی کا فلسفہ موجود ہے لحاظہ نہ صرف ان کا استحصال جائز ہے بلک ان کو غلام بنانا اور ضرورت پڑنے پر مار دینا بھی جائز ہے. غیر یورپی لوگوں کو وہ سب ہیومن کہتے تھے اور ان کی زمین کو خالی زمین (Terra Nullius) کہتے تھے کیونکہ ایک تو یہ زمین کسی انسان کی نہیں اور یہاں کے سب ہیومن لوگ ذاتی ملکیت کے انسانی حق (human right of private property) کو نہیں مانتے. تو طے یہ ہوا کہ غیر یورپی لوگ نہ ہی انسان ہیں اور نہ ہی وہ انسانی حقوق پہ مبنی قوانین کو مانتے ہیں، لحاظہ ان کے ساتھ ہر غیر انسانی سلوک جائز ہے کیونکہ یہ لوگ انسان کی ڈیفینیش میں آتے ہی نہیں. یہ تھی اصل حقیقت یورپی انسان پرست فلسفے کی (اگر آپ لوگوں کو اوپر بتائی ہوئی کسی بات پہ بھی شک ہو تو میرے پاس بے شمار حوالہ جات موجود ہیں)... یورپ کے اسی کالونئل ازم کی وجہ سے ہی یورپ اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام نے ترقی کی (The development and progress of Europe not only depended on the exploitation of the European proletariat but also on the colonialism, loot and plunder, enslavement and genocide of the non-western colonies)
اب ہم آ تے ہیں یورپ کے اندرونی تضادات کی طرف : جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ پروٹسٹنٹ ریفارمیش کے بعد یورپ میں جو لبرل سیاسی انقلابات آئے اس کے نتیجے میں پرانے کیتھولک بادشاہتوں کا خاتمہ ہوا (انگلستان اور فرانس میں) اور ایک نئے عمرانی معاہدے کا آغاز ہوا (فرانسیسی انقلاب تو رد انقلاب کا شکار ہو گیا اور نپولین کی شکست کے بعد بربن بادشاہت کو ریسٹور کر دیا گیا) اور نئے قوانین بنائے گئے جن کی بنیاد بورژوا انسانی حقوق کی بنیاد پر رکھی گئی یعنی زندگی، آزادی، اور نجی ملکیت کے حقوق. یورپ کے اندر اس بورژوا ٹرانسفارمیش کے نتیجے میں کیتھولک عیسائیت سیاسی طور پہ کمزور ہوئی، پرانی بادشاہتوں کے سر پہ عوامی انقلابات کا خطرہ منڈلانے لگا، پرانے فیوڈل سماجی ڈھانچے اور ریلیشنز بدل گئے اور یورپین سماج میں ایک نیا تضاد جنم لینے لگا، اور وہ تضاد تھا بورژوا اور پرولتاریہ طبقے کے درمیان. یہ پرولتاریہ کا طبقہ وہی "peasant "طبقہ تھا جو مذکورہ بالا معاشی اور سیاسی اتھل پتھل کے نتیجے میں" displace" ہوا اور شہروں میں دیھاڑی دار مزدور کے طور پہ کام کرنے لگا اور انتہائی کم اجرت پہ روزانہ تقریباً 18 گھنٹے کام کر کے اپنا گذر سفر کرنے پر مجبور ہوا. بورژوا طبقے نے پرولتاریہ طبقے کے اس بہیمانہ استحصال کو بھی اپنے انسان پرست فلسفے سے جسٹیفائی کیا کہ یہ پرولتاریہ طبقہ چونکہ ان پڑھ اور جاہل ہے اور اس کے پاس اپنی ذاتی ملکیت بھی نہیں (اور یہ دونوں شرائط انسان یعنی بورژوازی انسان ہونے کے لئے لازمی تھین) اس لئے ان کا غیر انسانی استحصال جائز ٹھہرا. بورژوازی سماج اور فلسفے کے اسی تضاد نے نئے سوشلسٹ فلسفوں اور نظریات کو جنم دیا جو کہ اس بورژوازی سماج اور اس کی نام نہاد انسان دوست فلسفے کے تضادات کو واضح کرتا چلا گیا. ان اوائلی سوشلسٽ نظریات کو یوٹوپیائی سوشلزم کہا جاتا ہے، یوٹوپیائی اس لئے کہ ان کے پاس بوژوا سماج پہ تنقید تو تھی لیکن مستقبل کے لئے کوئی واضح یا کنکریٹ پروگرام نہ تھا، صرف خیالی خاقے ہی تھے جن کا تاریخ اور موجودہ سماجی ڈھانچے کو عملی طور پہ بدلنے کا کوئی واضح سیاسی پروگرام نہ تھا.
3- مغربی بورژوازی سرمایہ دارانہ سامراجی روشن خیال انسان پرستی پر مارکسی سائنسی سوشلسٹ تنقید کا آغاز
کارل مارکس نے جب اپنی شعوری زندگی میں قدم رکھا تو اپنے آپ کو انہی حالات اور جدید سماج کے تضادات میں پایا اور پھر اپنی پوری زندگی انہی تضادات کے خلاف جدوجہد میں گذاری. مارکس نے ایک طرف جرمن خیال پرستانہ فلسفے پر تنقید کی دوسری طرف فرانسیسی رپبلکن نظرے اور یوٹوپیائی سوشلسٹون پر تنقید کی تو تیسری طرف برٹش پولیٹیکل اکانومی یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ مارکسزم دراصل ان تینوں چیزوں کا مرکب ہے۔ انہی تینوں چیزوں کے مرکب کو جدلیاتی اور تاریخی مادیت کہا جاتا ہے۔ جدلیاتی تاریخی مادیت تاریخ کے ہمہ جہت تضادات کے مطالعے کا نام ہے اور اس مطالعے کا مقصد انسانیت کو ان تضادات سے نجات دلانا ہے. وہ تضادات جن کی نوعیت نہ صرف معاشی، سماجی اور سیاسی ہے بلکہ نفسیاتی بھی ہے. یعنی موضوعی اور معروضی دونوں، کیونکہ انسان کی غلامی کا تعلق نہ صرف معروضی معاشی، سیاسی اور سماجی ڈھانچے سے ہوتا ہے بلکہ انسان کی نفسیات کے ساتھ بھی ہوتا ہے جو اسی اندرونی اور بیرونی جدلیات کے نتیجے میں وجود میں آ تی ہے اور انسان کو ذہنی محکومیت و غلامی کی طرف لے جاتی ہے. مارکسزم کا پورا فلسفہ جدیدیت کے ان تضادات کو حل کرنے کی ایک جدلیاتی جدوجہد کا نام ہے جس میں ایک طرف انسان دوستی/ پرستی، مساوات، اور بھائی چارے کے نعرے ہیں لیکن عملی طور پر ایک طبقے (مغربی بورژوازی) کی حکومت اور دوسری طرف پوری انسانیت کی محکومیت. لیکن مارکس کوئی جذباتی یا بیوقوف یوٹوپیائی سوشلسٹ نہیں تھا، وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ دنیا کو صرف جذباتی نعروں کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا ہے، اس کے لئے ایک گہرے سائنسی، سیاسی، معاشی، اور سماجی مطالعہ کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بعد ہی دنیا کو تبدیل کرنے کا کوئی عملی حل پیش کیا جاسکتا ہے۔ اور اسی گہرے مطالعہ کے بعد ہی ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کی آنے والی دنیا یعنی سوشلزم کے خدوخال کیا ہوں گے یا کیا ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سوشلزم موجودہ دنیا کی تجریدی نفی کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک جدلیاتی نفی کا نام ہے، جس میں پرانی دنیا کی تمام تر مادی ترقی (جو کہ ظلم جبر اور استحصال کے نتیجے میں حاصل کی گئی ہے) کو اس سوشلسٹ سماج کے اندر شامل کیا جائے گا (سوشلزم پہیئے کو دوبارہ ایجاد کرنے کا نام نہیں، جو کچھ سادہ لوح یوٹوپیائی رومانٹک سوشلسٹون کا خیال ہے) اور اس ترقی کے ساتھ جڑے استحصال کو ٹھیک سائنسی انداز میں بتدریج ختم کیا جائے گا۔ مارکس کی نظر میں سوشلزم ایک عبوری دور کا نام ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی تضادات کو عملی اور سائنسی انداز میں ختم کیا جائے گا۔ جب پرانی دنیا کے تمام تضادات ختم ہو جائیں گے اور حاکم اور محکوم کی طبقاتی جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا (یعنی طبقات باقی نہیں رہیں گے ) تو سماج ایک نئی معیاری جست کے لئے تیار ہو جائے گا، اور مارکس اس معیاری جست کو کمیونزم کا نام دیتا جو انسانی تاریخ کے ایک نئے، حقیقی جمہوری اور آزاد دور کا آغاز ہوگا. مارکس کا خیال تھا کہ یہ سوشلسٹ انقلاب ترقی یافتہ مغربی ممالک میں آئے گا کیونکہ ان ممالک میں طبقاتی تضاد یعنی بورژوا اور پرولتاری طبقہ کے تضادات اپنے عروج پر ہیں، اس لئے انہیں ممالک میں پرولتاری طبقہ بورژوازی طبقہ کے خلاف ایک آرگنائزڈ جدوجہد کرے گا اور سوشلسٹ انقلاب لائے کا. لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سوشلسٹ انقلابات مغربی ممالک کے بجائے روس جیسے پسماندہ غیر مغربی سماج میں آئے اور اس انقلاب کے نتیجے میں نئے تضادات سامنے آئے، یعنی معاشی، سیاسی، سماجی، اور ثقافتی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں سوشلزم کی تعمیر کی جدلیات اور تضادات۔
4- غیر مغربی پیریپھریز اور سیمی پیریپھریز میں سوشلسٹ جدیدیت کے بغیر مغربی سامراجیت سے مقابلہ ممکن نہیں
جیساکہ ہم مندرجہ بالا سطور میں دیکھ چکے کہ جدید مغربی تہذیب پرانی تمام تر تہازیب سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس تہذیب کی بنیاد کسی روایتی مذہبی اخلاقیات یا "cosmic" اور" Theocentric" شعور پر مبنی نہیں ہے کہ ہم اس کے مقابلے میں اپنی تہذیبی روایات اور مذہبی اخلاقیات کے ذریعے اس کا مقابلہ کر پائیں؛ یہ تہذیب (جدید مغربی تہذیب ) اپنے سرمایہ دارانہ سامراجی منطق کے لحاظ انسٹرومنٹل اور کیلکولیٹو "instrumental and calculative " ریشنالٹی پر مبنی ہے جس کا بنیادی مقصد فطرت اور کائنات کی تسخیر کے اور غیر مغربی اقوام کو معاشی، سیاسی، سماجی، اور ثقافتی طور پر غلام بنانے کے ساتھ ہے ، اسی جدید مغربی تہذیب کے اس انسٹرومنٹل کو کیلکولیٹو ریشنالٹی پر مبنی نظام کو ہم سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کہتے ہیں کہ جس کا مقابلہ ہم نہ ہی اپنی روایتی تہذیبی اقدار و اخلاقیات سے کر سکتے ہیں (اگر یہ ممکن ہوتا تو یورپی ہم تمام غیر یورپی اقوام کو کبھی کالونائز کرنے اور غلام بنانے میں کامیاب نہ ہوتے) اور نہ ہی اس مغربی سامراجیت کا مقابلہ ہم ان کے سیاسی اور معاشی نظام کی نقالی کر کے کر سکتے ہیں کیونکہ اس قسم کی نقالی ہمیں ان سامراجی سینٹرز کی پیریپھریز اور نیو کالونی میں تبدیل کر دے گی اور ہم معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے ان مغربی سامراجی سینٹرز کے غلام بن کر رہ جائیں گے ؛ ثابت یہ ہوا کہ روایت پسندی اور پیریپھرل جدیدیت یا کامپریڈار لبرل ازم دونوں ہی مغربی سامراجیت سے مقابلے کے لیے ناکام حکمت عملیان ہیں کیونکہ دونوں ہی حکمت عملیوں کے نتیجے میں ہم مغربی سامراج کی پیریپھریز ہی رہیں گے اور سامراجی تسلط اور غلامی ہم پر برقرار رہے گی۔
مضمون کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے اس مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، مضمون کے دوسرے حصے میں ہم مارکسزم لینن ازم کے انقلابی فلسفے، روسی اور چینی انقلابات کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور آج کے دور میں رد سامراجی سوشلسٹ سیاست کے کنجنکچر پر تفصیل سے بات کریں گے ۔